"اریب بھائی آ۔۔آپ یہاں کیوں؟"
بمشکل سانس بحال کیے وہ بول پائی تھی اسے شاید یاد نہیں رہا کہ اب حوالہ بدل چکا ہے۔
"میں نے کیا کہا تھا تمہیں جو میری بات کو بنا ویلیو دیے تم نے اپنی من مانی کی تو اسکا انجام کتنا خطرناک ہوسکتا ہے پھر بھی تم نے اپنی کی تو اسکا انجام بھگتو گی تم۔"
وہ اپنے وائٹ کرتے کے بٹن کھولتے اسکی طرف بڑھ رہا تھا ۔
پریزے کو اسکے ارادوں کی آگاہی حاصل ہوئی تو وہ خوفزدہ سی ہوتی اپنا بچاؤ کرنے لگی تھی۔
لیکن اریب کی مضبوط گرفت کے آگے وہ انچ بھر لڑکی پھڑ پھڑا کے رہ گئی۔
وہ اسکے چہرے سے پھولوں کا زیور نوچنے لگا تھا۔
"پلیز اریب بھائی آپ مم۔۔میرے ساتھ ایسے مت کریں میں ابھی جاکے پھپو کو منع کردیتی ہوں کہ مم۔۔مجھے۔۔۔"
وہ خوف کے زیر سائیہ بولی جب اریب کا تھپڑ اسکے چہرے پہ پڑا تھا۔
"تم چالاک لومڑی اسوقت صرف جگ ہنسائی کروانا چاہتی ہو نا اور کچھ نہیں لیکن کل یہی سب لوگ تم پہ تھوکیں گے۔یہ جو آج محبتوں کے ابر میں بھگو رہے ہیں کل نفرت کریں گے تم سے۔"
اریب نے غصے سے کہتے اسکے دوپٹے کو ایک طرف پھینکا تھا وہ پتے کی طرح کانپ رہی تھی جب وہ اسے بستر پہ
گرائے اس پہ جھکا تھا اور انتہائی بےرحم سے اسکے وجود پہ گہرے زخم چھوڑنے لگا تھا۔
اسکے وجود کو برہنہ کرنے کیلئے بڑھتے اریب کے ہاتھ بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ لگ رہے تھے جب کسی انجانے احساس کے تحت اس نے اپنے بہکتے قدموں کو روکا تھا اور اسے خود سے الگ کیے ایک طرف دھکا دیا۔
"یہ سزا ہے میری بات نہ ماننے کی ،کل اس سے بھی بدتر ہوسکتی تمہاری حالت اسیلئے سوچ سمجھ کے میرے کمرے میں قدم رکھنا۔"
اسکے بازو میں اپنے آہنی ہاتھوں سے مزید زخم دیے وہ وہاں سے نکل گیا تھا۔
ابھی کچھ لمحوں پہلے کلیوں کا حسن لیے لڑکی نچڑ سی گئی تھی وہ سوچ سکتی تھی کہ اسکی قربتوں میں کتنی وحشتوں کو سہنا پڑے گا اسے۔
💠💠💠💠💠💠💠💠💠💠
Post a Comment
Post a Comment