Qurban Novel By S Merwa Mirza Last Episode
Qurban Novel By S Merwa Mirza Last Episode
ناول: قربان
تحریر: ایس مروہ مرزا
سٹوری لائن:
محبت ، جنون، دیوانگی، احساس ، قربانی اور دل و جان کے سچے جذبات سے بھری داستان، چھپا ہوگا ہر خاموشی میں اک طوفان۔ محبت اور دوستی کے کھلیں گے کچھ نئے روپ ، رومان پرور ساتھ کرے گا تاریک سے دل آباد، کیسے کریں گے دو مسیحا اس سفر کو آسان، پڑھنا مت بھولیے گا قربان۔
قانون کے محافظوں کی برائی سے ہوتی جنگ کی داستان۔
سنیک:
"میں ہوں ناں تمہاری دوست"
ہڑبڑا کر اٹھنے پر صلدم کی بھیگی آنکھیں تکتی جتنا وہ آزردہ ہوئی اتنا صلدم جسے یمان مہر کے یوں کہیں سے بھی آجانے پر حیرت ہوئی، وہ اسکا پیچھا کرتے نکلی تھی، شاید وہ صلدم کے ارادے اب بنا جانے بھی سمجھ جاتی تھی۔
"تم تو محبوبہ ہو ناں"
بڑھائے ہاتھ کو تھامے وہ اسکے ساتھ ہی واپس پلٹا جو اپنے دوسرے بند ہاتھ میں کچھ دبوچے ہوئے تھی، اس کمپلیمنٹ پر وہ اس مدھم مدھم چلتی رات کی پاکیزہ ہوا سے بکھرتے بال سمیٹے مسکرائی۔
"کبھی کبھی صرف دوست بھی سمجھ سکتے ہو، تم جانتے ہو صلدم مجھے خود بخود پتا چل گیا کہ تم یہاں آو گے۔ سجاول بھائی سے عثمان بھائی کی قبر کا پتا لیا اور چل پڑی۔ دیکھو تم واقعی یہاں ہو۔
میں تمہارے لیے ایک گفٹ لائی ہوں، اور پلیز ابھی ہم صرف دو دوست ہیں"
اتنی پیاری اور مخمور صورت لیے وہ نرم لہجے سے خواہش کرتی صلدم کی جانب اپنی ڈھیلی سی مٹھی بڑھاتے ہوئے متبسم ہوئی جو اس چھوٹے سے گفٹ پر منہ بسور گیا جو مخص مٹھی میں قید ہو گیا تھا۔
"اتنا بڑا گفٹ، اس پہاڑ کو اٹھا کر کہیں منہ کے بل گر پڑا تو رخصتی پے پھر کھے(مٹی) پڑھ جانی"
اتنی پیاری سحر انگیز صورت حال میں بھی اس بندے کو جوکس سے فرصت نہ تھی مگر اس بار یمان اپنی ازلی انداز سے گھورے محترم کے سارے دانت اندر کروا چکی تھی۔
"نہیں چاہیے تو میں اسے آزاد کر دیتی"
یمان روٹھ کر مڑتے ہی ناراضگی سے بولی تو وہ بھی بے تابی سے اس تک پہنچا جو حیرت سے زیادہ اب تجسس میں تھا۔
"ارے یار ایسا کیا ہے، اوکے دو پھر۔ چاہیے بلکل چاہیے"
ہاتھ بڑھا کر یمان کی مٹھی پکڑے وہ فوری لائن پر آیا تبھی یمان نے اک نثار سی نگاہ صلدم پر ڈالی اور اپنی مخملی مٹھی کھولی تو وہاں اک ننھا جگنو ٹمٹاتا ہوا یمان کی ہتھیلی کو روشن کیے ہوئے تھا۔
بے ساختہ ہی صلدم ولی شاہ کے ہونٹوں پر دلنشین تبسم مچلا، وہ خود اس شخص کی خوشی پر اترائی۔
"جگنو"
ہنستا ہوا وہ یمان کے تخفے کا نام لیتا اسے دیکھنے لگا جو آگے سے بھینا سا مسکائی۔
"ہاں، مجھے یہ تم جیسا لگا۔ اسے خود کی زرا پرواہ نہیں تھی کہ کسی چلتی گاڑی سے ٹکرا جاتا تو لمحہ لگتا اسکی قندیل بجھنے میں، اور جب اسکی روشنی نہ رہے تو یہ بھی نہیں رہتا، تمہیں پتا ہے دس منٹ لگے اسے بھاگ کر پکڑنے میں، اسکی یہ خوبصورت گاہے بگاہے جلتی روشنی زندگی کی وہ امید ہے جو اندھیرے کے بعد سویرا لاتی ہے۔ جب اسکی روشنی بجھ جائے تو یہ سیاہ اور تاریک ہو جاتا ہے، غمگین اور اداس جیسے انسان غموں اور دکھوں سے سامنا کیے ہار جاتا ہے مگر اسکی اگلے ہی لمحے جل اٹھتی روشنی ان ناکامیوں، دکھوں اور کمیوں میں اک آس جگاتی ہے۔
تم بلکل جگنو جیسے ہو، بے حد حسین ، چمکدار اور پراسرار"
پلکیں جھپکائے بنا وہ صلدم کی بے انتہا پیاری آنکھوں کو تکتئ جو گہرا فلسفہ کہہ رہی تھی آج پہلی بار اسے دماغی ڈاکٹر کے بجائے فلاسفر لگی۔
Post a Comment
Post a Comment